اہل بیت کے شہسوار:حضرت امامِ جعفرصادق رضی اللہ عنہٗ دنیا کہ بہت بڑے سائنسدان تھے اہل بیت کے شاہ سوار تھے۔ اہل بیت میں اُن کابڑا مقام تھا ، وہ دنیا کے بہت بڑے سائنسدان ہیں۔ اُنکی حکمت، اُنکی دا نائی، اُنکے نسخے اور اُن کی کمال کی چیزیںآج بھی سائنس اُن سے لیتی ہے،اُسکی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے خالق پر محنت کی تھی اورخالق نے اپنی بنائی ہوئی کائنات کی نعمتیں اُنکے سامنے کھول دی تھیں۔
خدمت اور عقیدت:ایک اللہ والے کے پاس ان کے ایک خادم آئے،جو شیخ کے ساتھ خدمت میں عقیدت سے رہتے تھے۔شیخ کی خدمت میں رہنا اور عقیدت سے رہنا بڑا مشکل کام ہے،اکثرمرید میں عقیدت ختم ہوجاتی ہے جبکہ ملتا سب کچھ عقیدت سے ہے ‘وہ خادم شیخ کی خدمت میں رہتے تھے کچھ عرصہ کے بعد شیخ سے عرض کرنے لگے:’’حضرت یہ ساری جڑی بوٹیاںبولتی ہیں کہ ہمارے یہ فائدے ہیں، ہمارے یہ فائدے ہیں، جب یہ جڑی بوٹیاں بولتی ہیں تومیں پریشان ہوجاتا ہوں تو حضرت نے فرمایا : ’’بھئی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ نعمت ہے اس کو لکھ لیا کرو‘‘ خادم نے اس کو لکھنا شروع کردیا۔ اس کے فائدے لکھنے شروع کردیے۔ اس کتاب کا نام انہوں نے رکھا’’حکیم غیب دان‘‘ یہ کتاب کافی عرصہ پہلے چھپی تھی اُس کے چند اوراق میرے پاس موجود ہیں۔
سوچ کا محور:جب بندہ خالق کا ہو جاتا ہے تو ساری مخلوق کا نظام اس کے تابع ہو جاتا ہے۔ جب بندہ سارا دن بیٹھ کر دنیا کو، اسباب کو ، چیزوں کو اور مخلوق کوسوچے گاتو پھر مخلوق ہی اُس کے دل میں آئیگی، خالق اس کے دل میں نہیں آئے گا۔اگر دل میںخالق بس جائے اُس کاساتھ مل جائے تو یقین جانیے کائنات ساری کی ساری اُسی کی ہوجائےگی! کائنات کی ایجادات اُسی کی ہو جائینگی!
ہمارے جاننے والے کچھ احباب ایسے ہیں جن کاتعلق بڑے بڑے اولیاء اورجنات کے ساتھ ہے‘ وہ اولیاء اورجنات بتاتے ہیں کہ پہلے دور کے جو درویش ہوتے تھے، وہ اپنا زیادہ وقت مخلوق پر نہیں خالق پر لگاتے تھے۔ یاد رکھیئے گا اگر یہ دماغ ہم نے اللہ تعالیٰ کو نہ دیاتویہ دماغ ایسے ایسے منصوبے سوچے گا کہ جس سے حلال و حرام کی دلیل ختم ہوجائیگی۔ اورحلال و حرام کا فرق ختم ہوجائے گا۔
حقیقی علم:اللہ والو! اگر ہم نے اپنے دماغ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا توپھر اس کے اندرمزید علم آئےگا، پھریہ علم سے ہر چیز کو پرکھے گا۔اگر ہمارے دل میں احکامِ الٰہی نہ ہوا تو ہمارے پاس صرف علم ہی ہوگا۔شیطان کے پاس تھوڑا علم نہیں تھالیکن اُس کا علم اُس کی بخشش کا ذریعہ نہیں بن سکا۔ پہلے دور کے جتنے بھی علماء یا بڑے بڑے دانشور ہوتے تھے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے پاس احکام الہٰی کا علم ہے اور ہمارا دماغ اُس علم سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن اُنہیں اپنے علم پر بھروسہ نہیں تھا ، اس لئے وہ فوراً کسی اللہ والے کی طرف رجوع کرتے تھے۔
علماء کا رجوعِ الٰہی:حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کامل پوری رحمۃاللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے اُن کا بہت بڑا جامعہ تھا ، اُن کا علم اور اُن کا اِستنباط ،اِستبصار،استدراک سِکہ بند ہے، اُن کا نام آتے ہی بڑوں بڑوں کی گردنیںجھک جاتی ہیں۔ اُس دور میں انہوں نے ایک اللہ والے سے رجوع کیا۔ فرمانے لگے:میرے پاس علم ہے! جسم کا ایک ایساحصّہ دماغ ہے جس میں تمام علوم و احکام ہیں لیکن میرے دل کے اندر وہ نور نہیں ہے جو ہونا چاہئے کیونکہ دل کا برتن خالی ہے اور دماغ کا برتن بھرا ہوا ہے۔
دل کا برتن :ہمارے دل کا برتن اس وقت تک نہیں بھرے گا جب تک ہم اپنے آپ کو کسی اللہ والے کے حوالے نہیں کریںگے جو دل کی دنیا کو لے کر چلتے ہیں جب تک ہم اپنا دل ان کے حوالے نہیں کریںگے‘ ہمارے دل کا برتن خالی رہےگا۔ اگرہمارے دماغ کا برتن علم سے بھرا ہواہے اور دل کا برتن عشقِ الٰہی سے نہیں بھرا ہوا تو گمراہ ہوجانے کا خطرہ ہے اوراگر دل کے اندر عشقِ الٰہی ہے اور دماغ کے اندر اللہ والے احکامات نہیں ہیں پھر بھی یہ گمراہ ہوجائےگا۔ پھر حیرت انگیز قسم کی بِدعات اس کوگھیر لیں گی اور ایسی چیزیں اس کے سامنے آئیںگی جس کو یہ سمجھے گا کہ مجھے اسی سے نور ملے گاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کو نور نہیں ملے گا ، اس کو وقتی سرور ملے گا اور اس سرور کے اندر گمراہی ہوگی۔
دو قیمتی اعضاء:جسم کے اندر دو اعضاء ایسے ہیں جن کو تھوڑی سی چوٹ لگے نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔وہ اعضاء ’’دِل اور دماغ‘‘ہیں۔ بازو پر چوٹ لگ جائے ، یاجسم کے کسی حصے پر چوٹ لگ جائے،یاجسم پر گولیاں لگ جائیں لیکن آدمی بچ جاتا ہے۔ دل یا دماغ کو تھوڑی سی گولی چھو کربھی گزر جائے توبندہ نہیں بچ سکتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ: یہ دو اعضاء ایسے ہیں جونہایت قیمتی ہیں، اِن دو اعضاء کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ سارے نظامِ عالم میں اللہ پاک جل شانہٗ نے انسان کو جو کچھ دیا ہے وہ ان دو اعضاء ایک دماغ اوردوسرادل کی وجہ سے دیاہے۔ ہمارے جسم میں دماغ اتنا قیمتی حصہ ہے کہ اللہ پاک جل شانہٗ نے اس کے اندر کھربوں سیلز رکھے ہیں، آج کی سائنس کہتی ہے کہ انسان اگر سو سال کی زندگی گزارلے اور سب سے بڑا سائنسدان بھی بن جائے اور اپنے دماغ کو خوب جی بھر کر خرچ کرے تو یہ اپنے دماغ کا ایک ہزارویں حصّے سے بھی کم حصہ استعمال کرتا ہے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں